Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر13

"بس مام۔۔ میں اسے واپس نہیں لا سکتا۔۔" اس کا لہجہ بھی اٹل تھا۔
"تو پھر اس کو طلاق دے دو۔۔!! کوئی فیصلہ لو۔۔!! یوں فضول میں اس بچی کی زندگی کی  خراب مت کرو۔۔!! تم نے بہت پاگل پن دکھایا ہے اب تک، اور میں نے برداشت کیا۔۔!! پر اب نہیں بیٹا۔۔!!" اس مام سنجیدگی سے بولیں۔
" لیکن۔۔ مام۔۔!! وہ۔۔" ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ اس کی مام نے بات کاٹی۔
"It's over now!! I can't listen your nonsense excuses anymore!! Please!! My son!! Be serious"
(بہت ہوگیا!! اب میں مزید تمہارے فضول بہانے نہیں سنوں گی۔۔!! خدارا۔۔!! سنجیدہ ہو جاؤ۔۔!!میرے بچے۔۔!!)
انہوں نے دو ٹوک کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔
عدیل نے زندگی میں پہلی دفع ، اپنی مام کو اتنا سنجیدہ دیکھا تھا۔۔!! اور وہ کیا کہہ گئی تھیں۔۔ "اس کو طلاق دے دو۔۔" "کیا میں یہ کر سکتا ہوں۔۔؟؟" اس نے خود سے سوال کیا۔۔ پر کوئی جواب نہ پا سکا۔
××××
واقعی سب کچھ بہت بگڑ چکا تھا، اتنا کہ اس کا ٹھیک ہونا اب بے حد مشکل تھا۔ اب تو عدیل نے بھی یہ بگاڑ محسوس کرنے لگا تھا۔۔ اب تو وہ بھی چاہتا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے۔
وہ عادل کو دیکھتا ، تو اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آتا کہ آخر وہ کیسے اتنا خودغرض بن گیا۔۔ اس نے ایک آدھی مرتبہ سوچا کہ عنقا کو طلاق دے ہی دے، اور عادل سے بھی معافی مانگ لے، ان دونوں کو پھر سے ایک کردے لیکن طلاق والی سوچ پر تو جیسے وہ مچل کر رہ جاتا، دماغ تھا کہ خاموشی اختیار کرلیتا، اور دل۔۔ اس کی کوئی آواز اب تک اس کے شعور تک نہیں پہنچی تھی۔
اس کے علاؤہ عادل سے معافی مانگنا۔۔ اس کے لیے کوئی آسان کام نہیں تھا۔۔ آخر کیا منہ لے کر جاتا۔۔ اور اریزے۔۔ وہ بھی تو اب تک اس کے دل و دماغ پر قابض تھی۔ اب تک اس کی جدائی، اسے اندر سے گھائل کرتی تھی، تڑپاتی تھی، درد دیتی تھی، وہ بے حد مشکل اور پریشانی سے گزر رہا تھا۔۔ وہ اذیت کا شکار تھا، اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا تھا، اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔ وہ  ہزاروں مشکلات کے بھنور میں پھنسا، زندگی سے دور ہوتا جا رہا تھا۔۔ وہ دن بہ دن گَھٹتا جا رہا تھا، اس کی حالت ایسی تھی کہ اسے دیکھ کر ، اس کی مام کو خوف آتا۔۔ وہ اپنی ہر مشکل ، ہر الجھن میں بالکل اکیلا تھا۔
اس وقت اسے ضرورت تھی کسی ایسے شخص کی، جو اسے سمجھے، جو اسے ، اس کی ہر مصیبت سے رہائی دلا سکے، کوئی ایسا جو اریزے کی کمی پوری کرے اور یقیناً عنقا کے علاؤہ ایسا کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ اور یہ بات اس بے خبر انسان کو معلوم نہ تھی۔
××××
عنقا کو گھر آئے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔۔ اب تو اس کے پیرینٹس نے بھی اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔۔ وہ اسے واپس بھیجنا چاہتے تھے۔۔ ظاہر ہے۔۔ وہ بھی کب تک، اسے ایسے گھر میں بٹھا سکتے تھے۔۔!!
لیکن عنقا سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔ وہ تو عدیل کا نام سنتے ہی تپ جاتی تھی۔
×××××
عدیل نے بہت سوچ بچار کرنے کے بعد عادل سے، بالآخر  معافی مانگنے کی ٹھانی۔ اس نے دو دفع اس سے بات کرنے کی کوشش کی پر وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا۔۔ عدیل کو خود میں کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھا۔۔ ہاتھوں میں سر گیا، رو رہا تھا۔
اس کا احساس جرم اسے رلا رہا تھا۔۔ وہ خود کو بہت بے قرار محسوس کر رہا تھا۔۔ اسے ہر حال میں اپنے چھوٹے بھائی سے معذرت کرنی تھی۔ پر کیسے۔۔؟؟ وہ تو اسے سننے کو تیار ہی نہ تھا۔ وہ تو اس سے کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ بھی تو حق پر تھا۔۔ بھلا ایسے کیسے عدیل کو سنتا۔۔ اس کی بات کو اہمیت دیتا۔۔ اس نے جو ظلم کیا تھا۔۔ جو گھٹیا پن دکھایا تھا۔۔ اس کے بعد تو اس سے کوئی تعلق جوڑے رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔ پھر وہ کیسے اس کی سن لیتا۔۔!!
×××××
عدیل۔۔ سے اب اپنا اضطراب سنھبالا نہیں جا رہا تھا۔۔ وہ انا اور خود پرستی کا مارا شخص، بالآخر اپنی انا قربان کرنے پر آمادہ ہوا۔۔ اس نے سوچا کہ آج چاہے جو بھی ہو۔۔ وہ اس سے بات کر کے ہی دم لے گا، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے سکون کا سانس لے گا۔
×××
وہ اپنی سوچ کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ عادل کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔ کچھ دیر پہلے اس نے، اسے وہیں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ اس لیے وہ ڈائریکٹ وہیں گیا۔ 
توقع کے مطابق عادل وہاں موجود تھا۔۔ وہ ٹاول سے اپنے گیلے ہاتھ منھ خشک کرتا ہوا ، واشروم سے باہر نکل رہا تھا۔۔کہ اس کی نظر عدیل پر پڑی۔۔
"آپ یہاں۔۔؟؟ " وہ بے حد حیرت زدہ ہوتا ، تھوڑی ناگواری سے بولا۔
"ہاں۔۔ وہ مجھے کچھ کہنا تھا۔۔!!" اس نے شرمندہ ہو کر کہا۔
"آپ ایسا کیوں لگا کہ میں آپ کی بات سنوں گا؟؟"اس نے تضحیک آمیز لہجے میں کہا۔
"مت سنو۔۔!! لیکن میں کہہ کر رہوں گا۔۔!" اس نے اٹل لہجے میں کہا۔
"جب میں سنوں گا ہی نہیں تو آپ کہیں گے کیسے۔۔؟؟" اس نے تمسخر اڑایا۔
اور ساتھ ہی آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ سے دھکیل کر ، اسے بدتمیزی کمرے سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔

   1
0 Comments